ہائے اکبرؑ ہائے اکبرؑ
کہہ رہے تھے یہ رو روکے سرورؑ
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
زخم سے اِس قدر خون بہا ہے
خونِ اکبرؑ سے تر کربلا ہے
نیزہِ ظلم کی لوریوں سے
لاڈلا میرا سویا ہوا ہے
کوئی اِس کو جگا دے نہ آ کر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
ہاتھ میں خوب کی مہندی لگا لو
بس تصور میں دولہا بنا لو
تم نے مانی ہے جو زندگی بھر
منّتیں آج ساری بڑھا دو
غربتوں کا یہ سہرا سجا کر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
میری بہنوں کو کب یہ پتہ ہے
وہ سمجھتی ہے یہ سو رہا ہے
سرد ہے جسم ساقط ہیں نبضیں
میرا کڑیل جواں مر چکا ہے
ہاتھ سینے سے اِسکا ہٹا کر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیؑ ردا ڈال دو
غم کی کالی گھٹا چھا رہی ہے
مجھ کو یہ بات تڑپا رہی ہے
پردہ سیدانیوں کا لُٹے گا
شامِ غربت قریب آ رہی ہے
پھر میّسر کہاں ہو گی چادر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
خاک میں مل گیا ہے وہ بانو
جس کو مٹی بھی لگنے نہ دی ہو
کتنے نازوں سے پالا تھا اُس نے
زخم جلدی سے بی بیؑ چھپا دو
بنتِ زہراؑ نہ دیکھے یہ منظر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
ہائے میری سکینہؑ کی غُربت
کیسے دیکھے گی بھائی کی میّت
دو جنازے نہ اُٹھیں گے مجھ سے
وہ تو زندان کی ہے امانت
مر نہ جائے کہیں میری دختر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیٰؑ ردا ڈال دو
اُسکو یہ کہہ کے دینا دلاسا
تُو نے دیکھا نہ بھائی کا لاشہ
تیری جانب سے مادر نے لیکن
بے کفن کو کفن دے دیا تھا
نام بیمار صغراؑ کا لے کر
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیؑ ردا ڈال دو
اے حلال ایک محشر بپا تھا
خیمہِ شاہ ماتم کدہ تھا
اَشک آنکھوں سے پیہم رواں تھے
آلِ احمدؑ میں شورِ بُکا تھا
جب یہ کہتے تھے سبطِ پیمبرﷺ
زخمِ اکبرؑ پہ لیلیؑ ردا ڈال دو
Leave a Reply
Comments powered by Disqus