نہ اِس مقام پہ کیوں عسکریؑ کا چین گرئے
یہ وہ زمیں ہے جہاں زین سے حسیؑن گرئے

اِسی مقام سے غازیؑ کو شہ نے دی تھی صدا

نہ دیکھا تم نے ہماری لڑائی کو بھیا

یہ کہہ رہے تھے کی بس حُرملہ کا تیر لگا

غریبِ زہرہؑ یہاں زین پر سنبھل نہ سکا

اِسی مقام پہ اب تک فرات روتی ہے

گلے لپٹ کے قضا سے حیات روتی ہے

تمام کرب و بلا ساتھ ساتھ روتی ہے

ہے ایک ماں جو یہاں ساری رات روتی ہے

 

عجیب حال میں دیکھا تھا شاہؑ کو ماں نے

نہ موت آتی تھی نہ سانس اِتنے زخمی تھے

اِسی مقام پَہ زہرہؑ نے اپنے بیٹے کے

بدن سے تیر نکالے تھے اپنے ہاتھوں سے

ہر اِک امام کو خوں اِس جگہ رُلایا گیا

جو شامیوں کے تھا بس میں وہ ظلم ڈھایا گیا

یہاں پہ گھیر کے تشنہ دہن کو لایا گیا

گرا کہاں یہاں مظلوم کو گرایا گیا

 

علیؑ کے لال کی آنکھوں میں تھا وہی منظر

گرئے تھے جس جگہ برچھی کے وار سے اکبرؑ

جوان لال کو رونے کی آرزو لے کر

یہیں سے گٹھنیوں چلتے ہوئے گئے سرورؑ

یہیں پَہ شمر نے سوچا ہوکیسے اندازہ

کہ مرگیا ہے یا زندہ ہے دلبرئے زہرہؑ

خیام لوٹ لو زینبؑ کے دی پھر اُس نے صدا

تڑپ کے اُٹھے تھے زینبؑ کے نام پر مولاؑ

 

چلے تھے گٹھنیوں اکبرؑ کی لاش تک مولاؑ

یہاں سے آگے تکلمؔ بیان کیا ہو بھلا

غریب کیسے بھلا قتل گاہ تک پہنچا

یہیں سے زلفیں پکڑ کر لعین لے کے چلا

 

(میر تکلمؔ میر)

Share in
Tagged in