سرِ عباسؑ آتا ہے ، سرِ عباسؑ آتا ہے

بلا لائے سکینہؑ کو۔۔۔۲، کوئی زنداں سے جا کر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

کہا زینبؑ نے یہ رو کر، سنبھالو بیبیوں چادر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

 

بھرا ہو گا لہو آنکھوں میں اُ سکی خود ہٹاوں گی،

میں بچپن کی طرح سے بھائی کا چہرہ دھلاوں گی،

اگر ممکن ہے تو دے دے کوئی پانی مجھے لا کر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

یہ غیرت کا خدا ہے اُسکی غیرت کا تقاضا تھا،

کھلا سر دیکھ کے نیزے سے جو یہ سر گراتا تھا،

نہیں ہے پاس گر چادر تو رکھ لو ہاتھ ہی سر پر،

سرِ عباسؑ آتا ہے۔

 

اسی احساس سے اُ س نے نظر اپنی جھکائ ہے،

اُسے معلوم ہے یہ کتنا غیرت مند بھائی ہے،

چھپائے کس طرح زینبؑ پڑے ہیں نیل شانوں پر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

مجھے اُٹھنا پڑے گا بیبیوں تعظیم کو اُسکی،

میں ماں امالبنینؑ کی سمت سے غازیؑ کو چومو گی،

سنبھالے سر کوئی عونؑ و محمدؑ کے یہاں آکر،

سرِ عباسؑ آتا ہے،

 

 

تھے سب کی جھولیوں میں اپنے اپنے لاڈلوں کے سر،

رقیہؑ، ام لیلیٰؑ،ام فرواؑ، مادرِ اصغرؑ،

اُٹھی کہتے ہوءے ہر ماں  سر اپنے لعل کا رکھ کر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

ملا پانی اُسے پوچھا تو کیا بتلائے گی زینبؑ،

بھلا اُسکی بھتیجی کو کہاں سے لائے گی زینبؑ،

نگاہیں اُسکی ڈھونڈیں گی سکینہؑ کو یہاں آ کر،

سرِ عباسؑ آتا ہے

 

تکلم شامیوں کی عورتیں بھی روتی جاتی ہیں،

علیؑ کی بیٹیاں جلدی سے زخموں کو چھپاتی ہیں،

کھڑی ہے ہاتھ پھیلائے ہوئے خود زینبِؑ مضطر،

سرِ عباسؑ آتا ہے۔۔۔۲

Share in
Tagged in