اب مجھے کوئی سکینہؑ نہیں کہتا باباؑ
قیدی کہتا ہے کوئی، کوئی یتیمہ باباؑ

نیل رُخساروں پہ بینائی بھی جس کی کم ہو

عمر ہو چار برس اور کمر میں خم ہو

آپ نے دیکھی ہے کیا ایسی ٖضعیفہ باباؑ

میں بیاں کیسے کروں اپنی مصیبت تم سے

کیا کروں اپنے طمانچوں کی شکایت تم سے

سُنتی ہوں دادی نے کھایا تھا طمانچہ باباؑ

 

آپ تھے دور تو میں سارے ستم سہتی رہی

رو پڑی کوفے کرے دربار مِیں میں سہہ نہ سکی

آپ کے سامنے جب شمر نے مارا باباؑ

خونِ بے شیرؑ سے اندازہ کیا تھا میں نے

آپ کا چہرہ تو پہچان لیا تھا میں نے

آپ پہچانوں گے کیسے میرا چہرہ باباؑ

 

میری آنکھوں سے بہے جاتے تھے آنسو اُس دم

ہاتھ بھی میں نے لگایا نہیں دادی کی قسم

دینا چاہا تھا مجھے لوگوں نے صدقہ باباؑ

وہ تو بیمار تھی مر جاتی سفرمیں آکے

دفن کرتے اُسے بازار میں بھیا کیسے

یہ تو اچھا ہوا آئی نہیں صغراؑ باباؑ

 

بین یہ کرتے ہی خاموش ہوئی وہ اکبرؔ

آج تو جائیں گے ساتھ اپنے مجھے بھی لے کر

آپ کو میری قسم کیجئے وعدہ باباؑ

اُس گھڑی ڈھونڈ رہی تھی میں چچا جان کا سر

کیسے بتلاؤں کے کیا گُزری تیری بیٹی پر

ہائے مجھ کو ظالم نے کنیزی میں جو مارا باباؑ

 

(حسنین اکبرؔ)

 

 

Share in
Tagged in