Top
الاماں الاماں یا صاحبِ الزماں – Mir Hasan Mir
fade
2443
post-template-default,single,single-post,postid-2443,single-format-standard,eltd-core-1.1,flow-ver-1.3.5,,eltd-smooth-page-transitions,ajax,eltd-grid-1300,eltd-blog-installed,page-template-blog-standard,eltd-header-vertical,eltd-sticky-header-on-scroll-up,eltd-default-mobile-header,eltd-sticky-up-mobile-header,eltd-dropdown-default,wpb-js-composer js-comp-ver-5.2.1,vc_responsive

الاماں الاماں یا صاحبِ الزماں

الاماں الاماں یا صاحبِ الزماں

الاماں الاماں یا صاحبِ الزماں

ٹوٹی ہوئی ہیں آج بھی زہرہ کی پسلیاں


حق مانگنے جو فاطمہؑ دربار میں گئی

بیٹھے رہے تھے لوگ کسی نے حیا نہ کی

زینبؑ کی ماں کھڑی رہی لوگوں کے درمیاں


واہ غربتا بتولؑ پے کیسی تھی وہ گھڑی

تم کو صدائیں دیتی تھی بیٹی رسولﷺ کی

دیوار اور جلتے ہوئے در کے درمیاں


ڈھاتی رہی ستم پہ ستم اُمتِ رسولﷺ

دیتی رہی اذانِ ولایت وہاں بتولؑ

زہرہؑ کی بات سُنتا نہیں تھا کوئی جہاں


دربار سے لوٹ کے بنتِ نبیﷺ گئی

گُزرے نی اُس مقام سے مولا حسنؑ کبھی

جس کوچے میں گری تھی زمیں پر حسنؑ کی ماں


آباد ہوگا پھر سے اُجڑا ہوا دِیار

تب ہوگا ختم فاطمہ صغریٰؑ کا انتظار

اکبرؑ کی طرح دو گے مدینے میں جب اذاں


تنہائی قید دُرّے یتیمی اندھیرا گھر

حد ہے یہ کوئی جا بھی نہیں سکتا قبر پر

اب اور کتنا ہوگا سکینہؑ کا امتحاں


کڑیل جواں کو روتی ہے تربت میں آج بھی

اکبرؑ کے تو کلیجے سے برچھی نکل گئی

زینبؑ کے دِل سے نکلی نہیں آج تک سناں


بالی سکینہؑ قید ہے زنداں میں آج بھی

اکبرؔ ہے انتظار میں بیٹی حسینؑ کی

اب بھی سنائی دیتی ہیں بچی کی ہچکیاں

(حسنین اکبرؔ)
mirhasan
No Comments

Post a Comment