![](https://www.mirhassanmir.com/lyrics2/wp-content/uploads/2017/09/kistarhan.png)
کس طرح اپنی تباہی کی خبر لے جائے
کس طرح اپنی تباہی کی خبر لے جائے
پاس زینبؑ کے بچا کیا ہے جو گھر لے جائے
لے گئی باپ کا سایہ تو سروں سے اُن کے
اب یتیموں کو ہوا چاہے جدھر لے جائے
ایک تو گھر کے چراغوں کو بجھا دے لیکن
چھین کر کوئی نہ اُمیدِ سحر لے جائے
پاؤں زخمی ہیں تو راہوں میں ہیں پتھر کانٹے
جانے عابدؑ کو کہاں تک یہ سفر لے جائے
بولی ہوں گی علی اکبرؑ کو سجا کر زینبؑ
چاند کو میرے کسی کی نہ نظر لے جائے
سوچتی ہو گی یہ بانوؑ میرا بچ جائے سہاگ
ہُرملا مجھ سے میرا لختِ جگر لے جائے
رکھ کے آنکھوں پہ سُلگھتے ہوئے مقتل میں
لاش بچوں کی شبیرؑ کا سر لے جائے
شاعری کی میری معراج یہی ہو گی نظیرؔ
ذکرِ سرورؑ میں مجھے موت اگر لے جائے