کہرام مچ گیا
الوداع الوداع
خیمے میں آکے شاہ نے جب الوداع کہا
کہرام مچ گیا
تھا جس کا انتظار وہ ساعت قریب ہے
دن ڈھل رہا ہے شامِ مصیبت قریب ہے
کچھ دیر کی ہے بات قیامت قریب ہے
زینب غریب بھائی کی رخصت قریب ہے
یہ کہہ کے مانگا ماں کا جوکُرتہ سلا ہوا
کہرام مچ گیا۔۔۔
کچھ دور ہٹ کے خیمے میں بولے شہِ زمن
زہمت نہ ہو تو بازو بڑھائو زرا بہن
میں بوسے لوں وہاں کے بندھے گی جہاں رسن
بازو بڑھا کے روتی تھی ہمشیر خستہ تن
بھائی بہن کے بازئوں کو چومنے لگا
کہرام مچ گیا۔۔۔
یہ سن کے بنتِ فاطمہ زہرا تڑپ گئی
بولی گلہ بڑھائو بس اب جلد یا اخی
اماں کی بات آج مجھے یاد آگئی
میں بوسے لوں وہاں کے چلے گی جہاں چھری
زینب نے بڑھ کے چوما برادر کا جب گلہ
کہرام مچ گیا۔۔۔
بیٹی سے پھر یہ کہنے لگا فاطمہ کا لال
رہنا پھپی کے پاس رکھیں گی تیرا خیال
غربت ہے تم پھپی سے نہ کرنا کوئی سوال
ورنہ تیرے پدر کو بہت ہوئے گا ملال
پھر سر پہ ہاتھ رکھ کے جو دینے لگے دُعا
کہرام مچ گیا۔۔۔
بیٹی کو جب سپردِ بہن کرچکے امام
روکر بہن سے کہنے لگے آسماں مقام
جانا وطن جو قید سے چھٹ کر اے تِشنہ کام
کہنا لحد پہ ماں کی میراآخری سلام
آیا جو لب پہ فاطمہ زہرا کا تزکرہ
کہرام مچ گیا۔۔۔
عابد سے پھر یہ کہنے لگے شاہِ کربلا
بیوائوں کا اور یتیموں کا اب تم ہو آسرا
جو امتحان میرا تھا سب میں نے دے دیا
آگے تیرا جہاد ہے بیمارِ کربلا
بیمار بیٹا باپ سے جس دم جدا ہوا
کہرام مچ گیا۔۔۔
خیمے سے باہر آئے جو سلطانِ کربلا
سر کو جھکائے روتا تھا خود اسپِ باوفا
اب کس طرح سوار ہو زہرا کا لاڈلا
تنہائی کے سواکوئی یاور نہیں بچا
جب سوئے نہر دیکھ کے غازی کو دی صدا
کہرام مچ گیا۔۔۔
بھائی کو تنہا دیکھ کے زینب تڑپ گئی
روتی ہوئی حسین کے نزدیک آگئی
اور پھر رکاب تھام کے بولی اے شاہِ دیں
لو میں سوار کرتی ہوں عباس گر نہیں
واعظ ہوا سوار جو زہرا کا لاڈلا
کہرام مچاے۔۔۔2