اکبرؑ نے کہا رو کر اے درد زرا تھم جا
شبیہہ، امامِ زماںؑ کھینچتے ہیں
تصور میں تصویرِ جاں کھینچتے ہیں
کہا رو کے اکبرؑ نے اے درد تھم جا
کہ سینے سے باباؑ سِنا کھینچےہیں
اکبرؑ نے کہا رو کر اے درد زرا تھم جا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچتے ہیں
اے بہتے لہو رُک جا ہے واسطہ صغراؑ کا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
پٹی میرے باباؑ نے آنکھوں پہ نہیں باندھی
دی ہے کُھلے ہاتھوں سے رَن میں میری قربانی
اے دادا خلیلؑ آؤ ہے وقت قیامت کا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
یصرب کی طرف آنکھیں ہر دم میری رہتی ہیں
اب وقت بہت کم ہے سانسیں بھی اُلجھتی ہیں
قاصد میری صغراؑ کے جلدی سے زرا آ جا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
اکبرؑ کی گزارش ہے لللہ نہ رد کرنا
جب آپکا شیوہ ہے دنیا کی مدد کرنا
باباؑ کی مدد کرنے آجائیے اے داداؑ
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
دیکھا نہیں جائے گا آنکھوں سے کبھی میری
تڑپوں گا اگر میں تو تکلیف اُنہیں ہو گی
اُلفت کا تقاضا ہے لرزے نہ بدن میرا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
ارمان جو دل میں ہے دل میں ہی نہ دفنا دے
ایسا نہ ہو زینبؑ کو جا کر کوئی بتلا دے
پیاری پھوپھی اماںؑ سے برداشت نہ یہ ہو گا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
مرنے کا نہیں ہے غم غم ہے تو بس اتنا ہے
دروازے پہ مدت سے بیٹھی ہوئی ہے صغراؑ
سُن کر یہ خبر شاید مر جائیگی وہ دُکھیا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں
کہتا تھا تکلمؔ وہ ہمت جو میری ہوتی
خود اپنے ہی ہاتھوں سے میں کھینچتا یہ برچھی
تکلیف نہہں اپنی ہے درد مجھے اسکا
باباؑ میرے سینے سے سِنا کھینچ رہے ہیں