کربلا سے جو کبھی ہو کے ہوا آتی ہے
کربلا سے جو کبھی ہو کے ہوا آتی ہے
کسی معصوم کی ہچکی کی صدا آتی ہے
ماں سمجھتی ہے دلہن لاؤں گی آیا ہے شباب
شہہؑ سمجھتے ہیں کہ اکبرؑ کی قضا آتی ہے
ہاں دھڑکتا نہ ہو مرقد میں کہیں قلبِ ربابؑ
علیؑ اصغرؑ علی اصغرؑ کی صدا آتی ہے
کون سوتا ہے کنارے تیرے اے نہرِ فرات
تیری مٹی سے ابھی بُوِ وفا آتی ہے
کوئی بیمار نہ پڑھتا ہو تحجد کی نماز
رات کو بیڑیوں کی کیوں یہ صدا آتی ہے
جب کبھی زیادہ میں بیمار جو ہوتا ہوں شہیدؔ
خود با خود میرے لیے خاکِ شفا آتی ہے