نہ مارو نہ مارو ہائے پتھر نہ مارو
نہ مارو نہ مارو ہائے پتھر نہ مارو
پتھر برسانے والو میں قیدی ہوں پردیسی ہوں
مجھ کو تڑپانے کی خاطر زہراؑ کو رُلانے کی خاطر
رستوں کو سجانے والوں پردیسی ہوں
سُنتے ہو اذان میں نام اُسکا دراصل وہ ہے میرا ناناﷺ
آئے ہو ثنا خوان بن کر بے مکنہ ہوں بے چادر ہوں
اے مجھکو رلانے والو پردیسی ہوں
کانٹوں پہ چلاتے ہو مجھ کو ہر دم ستاتے ہو مجھ کو
دُروؤں سے اذیت دیتے ہو ہر دن قیامت ڈھاتے ہو
بازار میں لانے والو پردیسی ہوں
دن دھوپ میں ہے سب اوس میں ہے اِک لمحہ افسوس میں ہے
گرد بھی ہے سفر کی چہروں پر اور گرد سفر ہے بالوں پر
دل میرا دُکھانے والو پردیسی ہوں
اِس شہر کی میں شہزادی تھی سب کو پردہ سکھلاتی تھی
آزاد کنیزوں کو بھی کیا اپنا یتیموں کو سمجھا
مجھے قیدی بنانے والو پردیسی ہوں
سائے میں نہیں چلنے دیتے آرام نہیں کرنے دیتے
گرتے ہیں جو اُونٹوں سے بچے مرتے ہیں وہ دب کر پیروں سے
اے رحم نہ کرنے والو پردیسی ہوں
میرے بھائی بھتیجے مار دئیے سر کاٹ کر پھر نیزوں پہ رکھے
رستے میں جو ٹھوکر کھاتا ہے بیمار کو غش آ جاتا ہے
اے زخم لگانے والو پردیسی ہوں
ریحانؔ میری آقا ذادیؑ دربار میں یوں تھی فریادی
کہرام بپا دربار میں تھا اُس وقت نبیﷺ زادی نے کہا
گھر میرا جلانے والو پردیسی ہوں