بے کسوں کا قافلہ ہے شام کا بازار ہے
بے کسوں کا قافلہ ہے شام کا بازار ہے
خواہرِ عباسِؑ غازیؑ قافلہ سالار ہے
کیوں نہ رونے کی صدا آئے در و دیوار سے
بے ردا سیدانیاںؑ ہیں اور بھرا دربار ہے
کس طرح مانگے غلاموں سے بھلا عابدؑ ردا
یہ ہے غازیؑ کا بھتیجا اور بڑا خوددار ہے
یوں حقارت سے نہ دیکھو سیدِ سجادؑ کو
یہ کوئی مفلس نہیں کونین کا سردار ہے
خاک سر پر تازیانوں کے نشاں ہیں پشت پر
طوق ہے زنجیر ہے اور عابدِؑ بیمار ہے
یا الہٰی کیسے گزرے گا یہ نازوں کا پلا
پاؤں میں چھالے پڑے ہیں راستہ پُر خار ہے
تازیانے مت لگاؤ سیدِ سجادؑ کو
تازیانے مت لگاؤ مت ستاؤ ظالمو
یہ بہت زخمی بہت پیاسا بہت بیمار ہے
چُپ ہیں عابدؑ غمزداہ گھبرا رہی ہیں بیبیاںؑ
اب بہت نزدیک شاید شام کا دربار ہے
کہہ رہا ہے شہہؑ کی آنکھوں سے خون بہتا ہوا
شام کے بازار کی منزل بہت دشوار ہے
جو گھرانہ لُٹ گیا تھا دشت میں گوہرؔ کبھی
آج وہ ہی دو جہاں کا مالک و مختار ہے