دیکھا جب باپ کا لاشہ تو سکینہؑ
دیکھا جب باپ کا لاشہ تو سکینہؑ روئی شمر نے مارا جو درّا تو سکینہؑ روئی
نہ ملا پانی اُسے آگ بجھانے کیلئے جل گیا بھائی کا جھُولا تو سکینہؑ روئی
اوڑھ کر سر پہ ردا کان میں دُر پہنے ہوئے سامنے آئی جو رملا تو سکینہؑ روئی
مار کر سیدِؑ مظلوم کے ہونٹوں پہ چھڑی جب ہنسا حاکمِ کوفہ تو سکینہؑ روئی
کیا سکینہؑ ہو تم ہی اتنا بتا دو بی بیؑ ہند نے آ کے جو پوچھا تو سکینہؑ روئی
چاہتی تھی کہ وہ لے آئے اُسے خیمے میں باپ کا لاشہ نہ اُٹھا تو سکینہؑ روئی
قید میں سنتے ہوئے باپ کے سرسے لوری زخمی ہونٹوں کو جو دیکھا تو سکینہؑ روئی
میر سجادؔ وہ ناکے سے گِری روئی نہیں آ کے دادیؑ نے اُٹھایا تو سکینہؑ روئی