Top
اصغر کو لے کے گود میں کہتی ہے کربلا – Mir Hasan Mir
fade
2514
post-template-default,single,single-post,postid-2514,single-format-standard,eltd-core-1.1,flow-ver-1.3.5,,eltd-smooth-page-transitions,ajax,eltd-grid-1300,eltd-blog-installed,page-template-blog-standard,eltd-header-vertical,eltd-sticky-header-on-scroll-up,eltd-default-mobile-header,eltd-sticky-up-mobile-header,eltd-dropdown-default,wpb-js-composer js-comp-ver-5.2.1,vc_responsive

اصغر کو لے کے گود میں کہتی ہے کربلا

اصغر کو لے کے گود میں کہتی ہے کربلا

اصغر کو لے کے گود میں کہتی ہے کربلا۔۔۔۔

یہ وہ علی ہے جس کو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔3


چھ ماہ کے غریب ، مسافر کو سونپ کے،

کہنے لگے حسین یہ قبر صغیر سے،

رکھنا زرا خیال میرے تشنہدہاں کا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔2


مادر یہ بین کرتی تھی دل میں ہے یہ کسک،

صغرا تمہاری گود سے آغوش قبرتک،

اصغر کو موت نے کہیں رکنے نہیں دیا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2


ماں سوچتی تھی ڈھلتا ہے دن ہو رہی ہے شام،

جھولے میں لوٹ آئیں گا شاید وہ تشنہدہاں ،

لیکن غضب ہوا کہ وہ جھولا بھی جل گیا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2


گلیوں میں شہر کوفہ کی بازارشام میں،

شیریں کے گھر کبھی دربار شام میں،

مرنے کے بعد بھی علی اصغر سفر میں تھا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2


ننھے سے سر کو ناز سے بس تکتے رہتے تھے،

پھر خون رو کے سید سجاد کہتے تھے،

میں وہ علی ہوں جسکا بھرا گھراجڑ گیا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2


جانے لگا وطن جوغریبوں کا کاروان،

مڑ مڑ کے کہتی تھی اک خالی گود،

رکھیو سنبھال کر اسے اے ارض نینوا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2


ڈر ہے پھر سے کوئی سنا پر  اُٹھا نہ لے،

لپٹا ہوا ہے ابھی سینہ سے باپ کے،

رو رو کے کہہ رہی ہے تکلم یہ کربلا،

یہ وہ علی ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا۔۔۔۔2

mirhasan
No Comments

Post a Comment