Top
اے زائرِ حسینؑ اسّلام – Mir Hasan Mir
fade
2693
post-template-default,single,single-post,postid-2693,single-format-standard,eltd-core-1.1,flow-ver-1.3.5,,eltd-smooth-page-transitions,ajax,eltd-grid-1300,eltd-blog-installed,page-template-blog-standard,eltd-header-vertical,eltd-sticky-header-on-scroll-up,eltd-default-mobile-header,eltd-sticky-up-mobile-header,eltd-dropdown-default,wpb-js-composer js-comp-ver-5.2.1,vc_responsive

اے زائرِ حسینؑ اسّلام

اے زائرِ حسینؑ اسّلام

اے زائرِ حسینؑ اسّلام اللہ کی بہشت کے حقدار اسّلام

تجھ پر سلام شام و سحر شائرِ حسینؑ زائر ہیں تیرے شمس و قمر زائرِ حسینؑ سُن کہہ رہے ہیں اہلِ خبر زائرِ حسینؑ تُو تھا گنہگار مگر زائرِ حسینؑ تیرا ٹھکانہ برسرِ افلاک ہو گیا زم زم صدائیں دیتا ہے تُو پاک ہو گیا


حج کا ثواب لے کے اُٹھا تیرا ہر قدم رکھا قدم زمیں پہ تو عمرہ ہوا رقعم آواز آ رہی ہے یہ نبیوںؑ کی دم بادم تُو زائرِ حسینؑ تیرے زائرین ہم دیدار کر کے روضہِ سرورؑ کا فرش پر تُو نے خدا کو دیکھ لیا جا کے عرش پر


کھولا ہے رب نے بابِ فضیلت تیرے لئے قدسی بھی کر رہے ہیں عبادت تیرے لئے کوثر ہے تیرے واسطے جنت تیرے لئے عرفے کے روز ہے یہ سعادت تیرے لئے ممتاز کر دیا تیرے مسجود نے تجھے حاجی سے پہلے دیکھا ہے معبود نے تجھے


تجھکو دعاِ بنتِ پیمبرﷺ نصیب ہے قسمت کو ناز ہے وہ مقدر نصیب ہے تیرا ملائکہ سے بھی بڑھ کر نصیب ہے کیا مرتبہ تجھے سرِ محشر نصیب ہے جب ناصرانِ شاہؑ کو خالق بلائے گا محشر میں ساتھ تُو بھی بہتر کے جائے گا


حج کے بغیر حج کا فریضہ ادا کیا موسم کی کوئی فکر نہ خوفِ قضا کیا چھالوں سے اپنے مرہمِ زخمِ انا کیا تُو نے پیادہ پا سفرِ کربلا کیا قطرے تیرے پسینے کے کیا کام آئے ہیں اللہ نے اُنہی سے فرشتے بنائیں ہیں


کس طرح سے بیان ہوں منظر وہ عشق کے پیدل جو کربلا کو نکلتے ہیں قافلے کوئی نجف سے اور کوئی بسراکی راہ سے ہاتھوں میں یا حسینؑ کے پرچم لئے ہوئے زائر جو کربلا کی طرف دوڑے جاتے ہیں عباسؑ چل کے خود اُنہیں لینے کو آتے ہیں


ہوتی ہے اِک قطارِ موکب وہاں سجی خدمت میں زائرین کی رہتا ہے ہر کوئی پانی لئے کوئی تو کوئی بن کے مالشی اُن خادموں کے عشق پہ کہتا ہے دل یہی کرتے ہیں صاف آ کے پسینہ جبین سے ملنے حسینؑ آتے ہیں جب خادمین سے


دلہن کی طرح راہ سجاتے ہیں عاشقین خیمے محبتوں کے لگاتے ہیں عاشقین جو سال بھر میں رزق کماتے ہیں عاشقین دولت وہ زائروں پہ لٹاتے ہیں عاشقین کہتے ہیں پھر بھی قلب ہمارے نہ بھر سکے ہم زائرِ حسینؑ کی خدمت نہ کر سکے


جو راستے میں کرب و بلا کے گزر گئے کیسے کہوں کہ میر تکلمؔ وہ مر گئے پردیس میں تھے لوٹ کے وہ اپنے گھر گئے اے آ اَجل بتاؤں وہ زائر کدھر گئے دارِ فنا سے ملکِ بقا لے گئے حسینؑ خود آ کے اُنکو کرب و بلا لے گئے حسینؑ

mirhasan
No Comments

Post a Comment