Top
کیا کرے عباسؑ – Mir Hasan Mir
fade
3800
post-template-default,single,single-post,postid-3800,single-format-standard,eltd-core-1.1,flow-ver-1.3.5,,eltd-smooth-page-transitions,ajax,eltd-grid-1300,eltd-blog-installed,page-template-blog-standard,eltd-header-vertical,eltd-sticky-header-on-scroll-up,eltd-default-mobile-header,eltd-sticky-up-mobile-header,eltd-dropdown-default,wpb-js-composer js-comp-ver-5.2.1,vc_responsive

کیا کرے عباسؑ

کیا کرے عباسؑ

رسن میں ہاتھ بندھے ہیں بہن ہے بے پردہ

سِنا سے سر نہ گِرائے تو کیا کرے عباسؑ


پدر کی لاش سے اُس کو چھڑایا جاتا ہے

ستم ہے ناکے پہ تنہا بٹھایا جاتا ہے

رسن میں بالی سکینہؑ کا بند رہا ہے گلا

سِنا سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


وہ کس طرح سے تسلی دے آ کے مادر کو

کیا ہے دشت میں دو بار زبح اصغرؑ کو

لحد سے آ گیا نیزے پہ جسم اصغرؑ کا

سِنا سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


چھپا کے بالوں سے منہ شرمسار ہوتی ہے

وہ پشتِ ناکہ پہ اب خود سوار ہوتی ہے

یہ کیسا وقت ہے زہراؑ کی بیٹیوں پہ پڑا

سناِ سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


دھیان لاشہِ شبیرؑ سے ہٹانا تھا

دوبارہ سیدِ سجاد کو بچانا تھا

گِری ہے ناکے سے مقتل میں ثانیِ زہراؑ

سِنا سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


کہیں پہ قاسمؑ و اکبرؑ کہیں پہ عونؑ کا سر

کہیں ہیں لعل رقیہؑ کے اور کہیں اصغرؑ

وہ بچے نیزوں پہ ہیں گود میں جنہیں پالا

سِنا سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


ہے نیل چہرے پہ اتنے تماچے مارے ہیں

لعین نے کھینچ کے کانوں سے دُر اُتارے ہیں

ہے دونوں کانوں سے معصوم کے لہو بہتا

سِنا سے سر نہ گرائے تو کیا کرے عباسؑ


سر اُسکا کیسے سِنا پر کوئی اُٹھا کے چلے

جو شہہؑ کے سامنے نظریں صدا جُھکا کے چلے

تقاضا میر تکلمؔ ہے اُسکی غیرت کا

mirhasan
No Comments

Post a Comment