Top
ہائے شام ہائے شام ہائے شام – Mir Hasan Mir
fade
4172
post-template-default,single,single-post,postid-4172,single-format-standard,eltd-core-1.1,flow-ver-1.3.5,,eltd-smooth-page-transitions,ajax,eltd-grid-1300,eltd-blog-installed,page-template-blog-standard,eltd-header-vertical,eltd-sticky-header-on-scroll-up,eltd-default-mobile-header,eltd-sticky-up-mobile-header,eltd-dropdown-default,wpb-js-composer js-comp-ver-5.2.1,vc_responsive

ہائے شام ہائے شام ہائے شام

ہائے شام ہائے شام ہائے شام

شام کا بازار کُجا عابدؑ بیمار کُجا زینبِؑ دلگیر کُجا مجمہِ اغیار کُجا ہائے شام ہائے شام ہائے شام تیری اُمت کے زیور پہن کر نانا چلی ہوں شام


میں دیتی کفن تجھ کو بھیا گر سر پہ ردا میرے ہوتی گر ہوتے کھلے ہاتھ میرے تیرے زخموں کو ہاتھوں سے دھوتی پابندِ رسن سر برہنہ دیکھو بھیا چلی ہوں میں شام


جس زینبؑ کو تم نے برادر کبھی نظریں اُٹھا کر نہ دیکھا ہاتھ رسی سے میرے بندھے ہیں اور سر پر نہیں میرے پردہ کیسے کوفے میں جاؤ گی غازیؑ جب بلوے میں آئے گا نام


جیسے دربار پاس آ رہا ہے میرا دل ڈوبتا جا رہا ہے ہاں میں تو گھر میں بھی کم بولتی تھے بھائی تجھ کو تو سب کچھ پتا ہے کس طرح سے کرے گی بتا دے اِک شرابی سے زینبؑ کلام


دل یہ کہتا ہے رو رو کے بھیا کاش عباسؑ موجود ہوتا کاٹ دیتا وہ اُسکی زبان کو کوئی باغی اگر مجھکو کہتا دیکھتی پھر میں کس طرح لیتا کوئی زینبؑ کا مجمے میں نام


کہہ رہے ہیں یہ ہنس ہنس کے شامی آنے والے ہیں مروار باغی جس نے اجداد مارے ہمارے آ رہی ہے یہاں اُسکی بیٹی کھولتا پانی پھینکو چھتوں سے پتھروں کا کرو انتظام

mirhasan
10 Comments

Post a Comment